نعت
چہرہ ہے کہ انوارِ دو عالم کا صحیفہ
آنکھیں ہیں کہ بحرینِ تقدس کے نگیں ہیں
ماتھا ہے کہ وحدت کی تجلی کا ورق ہے
عارِض ہیں کہ ”والفجر“ کی آیت کے اَمیں ہیں
گیسو ہیں کہ ”وَاللَّیل“ کے بکھرے ہوئے سایے
ابرو ہیں کہ قوسینِ شبِ قدر کھُلے ہیں
گردن ہے کہ بَر فرقِ زمیں اَوجِ ثریا
لب، صورتِ یاقوت شعاعوں میں دُھلے ہیں
قَد ہے کہ نبوت کے خد و خال کا معیار
بازو ہیں کہ توحید کی عظمت کے عَلَم ہیں
سینہ ہے کہ رمزِ دلِ ہستی کا خزینہ
پلکیں ہیں کہ الفاظِ رُخِ لوح و قلم ہیں
باتیں ہیں کہ طُوبیٰ کی چٹکتی ہوئی کلیاں
لہجہ ہے کہ یزداں کی زباں بول رہی ہے
خطبے ہیں کہ ساون کے امنڈتے ہوئے دریا
قِرأت ہے کہ اسرارِ جہاں کھول رہی ہے
یہ دانت، یہ شیرازۂ شبنم کے تراشے
یاقوت کی وادی میں دمکتے ہوئے ہیرے
شرمندۂ تابِ لب و دندانِ پیمبر
حرفے بہ ثنا خوانی و خامہ بہ صریرے
یہ موجِ تبسم ہے کہ رنگوں کی دھنک ہے
یہ عکسِ متانت ہے کہ ٹھہرا ہوا موسم
یہ شکر کے سجدے ہیں کہ آیات کی تنزیل
یہ آنکھ میں آنسو ہیں کہ الہام کی رِم جھم
یہ ہاتھ، یہ کونین کی تقدیر کے اوراق
یہ خط، یہ خد و خالِ رُخِ مصحف و انجیل
یہ پاؤں،یہ مہتاب کی کرنوں کے مَعابِد
یہ نقشِ قدم، بوسہ گہِ رَف رَف و جبریل
یہ رفعتِ دستار ہے یا اوجِ تخیل!
یہ بندِ قبا ہے کہ شگفتِ گُلِ ناہید
یہ سایۂ داماں ہے کہ پھیلا ہوا بادل
یہ صبحِ گریباں ہے کہ خمیازۂ خورشید
یہ دوش پہ چادر ہے کہ بخشش کی گھٹا ہے
یہ مہرِ نبوت ہے کہ نقشِ دلِ مہتاب
رخسار کی ضَو ہے کہ نمو صبحِ ازل کی
آنکھوں کی ملاحت ہے کہ روئے شبِ کم خواب
ہر نقشِ بدن اتنا مناسب ہے کہ جیسے
تزئینِ شب و روز کہ تمثیلِ مہ و سال
ملبوسِ کہن یوں شکن آلود ہے جیسے
ترتیب سے پہلے رُخِ ہستی کے خد و خال
رفتار میں افلاک کی گردش کا تصور
کردار میں شامل بنی ہاشم کی اَنا ہے
گفتار میں قرآں کی صداقت کا تیقُّن
معیار میں گردُوں کی بلندی کفِ پا ہے
وہ فکر کہ خود عقلِ بشر سَر بگریباں
وہ فقر کہ ٹھوکر میں ہے دنیا کی بلندی
وہ شکر کہ خالق بھی ترے شکر کا ممنون
وہ حُسن کہ یوسفؑ بھی کرے آئینہ بندی
وہ علم کہ قرآں تِری عِترت کا قصیدہ
وہ حِلم کہ دشمن کو بھی امیدِ کرم ہے
وہ صبر کہ شبیرؑ تری شاخِ ثمردار
وہ ضبط کہ جس ضبط میں عرفانِ اُمُم ہے
محسن نقوی